کا پڑھا ہوا صدر مملکت * گزشتہ دنوں مدرسے کی ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردگان صاحب نے فرمایا:

*مدرسہ کا پڑھا ہوا صدر مملکت

* گزشتہ دنوں مدرسے کی ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردگان صاحب نے فرمایا: جب بچپن میں، میں مدرسے میں پڑھنے جاتا تو ہمارے علاقے کے لوگ مجھ سے کہا کرتے کہ بیٹے! کیوں اپنا مستقبل خراب کررہے ہو؟ کیا تمہیں بڑے ہوکر مُردے نہلانے کی نوکری کرنی ہے؟ مدرسے میں پڑھنے والے کو غسّال کے علاوہ کوئی روزگار مل سکتا ہے؟ لہذا کسی اچھے اسکول میں داخلہ لے لو اور اپنا مستقبل سنوارنے کی فکر کرو۔ اس قسم کی نصیحت کرنے والوں میں زیادہ تر بوڑھے ہوتے اور میں بڑے ادب سے ان کی باتیں سنتا اور مسکراتے ہوئے اپنی کتابیں بغل میں دبائے مدرسۃ امام الخطیب کی طرف گامزن ہوجاتا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد پھل فروش تھے۔ ان کے مالی حالات اس بات کے متحمل نہیں تھے کہ وہ مجھے کسی اسکول میں ڈالتے، ہمارے گھر میں بعض اوقات سالن کے بجائے خربوزے کے ساتھ روٹی کھائی جاتی۔ پھر والد کی دین سے والہانہ محبت تھی کہ مجھے حفظ قرآن کی کلاس میں ڈال دیا تھا۔ وقت گولی کی رفتار سے چلتا رہا اور میں نے استنبول کے اسی مدرسے سے 1973ء میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ قرآن مجید تجوید کے ساتھ حفظ کیا۔ گو کہ بعد میں یونیورسٹی سے بھی پڑھا۔ میں نے ترکی کی معروف مرمرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اکنامکس اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنس میں ماسٹر کیا۔ مگر ابتدائی تعلیم مدرسے سے ہی حاصل کی تھی۔ اب جب بھی مجھے ان بزرگوں کی نصیحتیں یاد آتی ہیں اور خود پر کریم رب کی رحمتوں کی بارش دیکھتا ہوں تو بے اختیار آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔۔۔۔ یہ کہہ کر اردگان نے حاضرین کو بھی اشک بار کر دیا۔ واضح رہے کہ مسلم حکمرانوں میں اردگان پورے عالم اسلام میں مقبول ترین لیڈر ہیں۔ ٹیوٹر میں سب سے زیادہ فالورز انہی کے ہیں اور ان میں بھی ستر فیصد عرب ہیں۔ اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کے بعد عرب دنیا میں انہیں ''بطل"'(ہیرو) کا خطاب مل چکا ہے۔ یاد رہے اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بچے ترکی کے دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔ 2015ء کے اوائل میں جاری اعدادوشمار کے مطابق ان طلبہ کی تعداد 40 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ تاہم وہاں کے مدارس کا نظام تعلیم بھی مکمل جدید خطوط پر استوار ہے۔ (رپورٹ، الجزیرہ)۔ کاش کہ ہمارے یہاں بھی ایسا نظام ہوتا تو ہمیں بھی گستاخوں کی سزا کیلئے کوئی مہم چلانے کی ضرورت نہ پڑتی، ہمارے ججوں سے لے کر وکلا تک، صدر و وزیر اعظم سے لے کر ممبران اسمبلی تک، ساری ریاستی مشینری خود ہی یہ کام سنبھال لیتی۔۔۔

Enjoyed this article? Stay informed by joining our newsletter!

Comments

You must be logged in to post a comment.

About Author