شیخ یوسف ایسٹیس ۔۔۔۔۔۔

شیخ یوسف ایسٹیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کعبے کو محافظ مل گئے صنم خانے سے، دنیا بھر میں ایک ہردل عزیز نام ہے. اتنے ہنس مکھ ہیں کہ نام سن کر یا چہرہ دیکھ کر ہی انسان مسکرانے لگے. آپ کا اصل میدان دعوت دین ہے مگر اپنی حس مزاح کی وجہ سے بچوں میں بہت مقبول ہیں. سینکڑوں لوگوں کے قبول اسلام کا ذریعہ بننے والے یہ مبلغ دین ایک کٹر عیسائی امریکی فیملی میں پیدا ہوئے. آپ کا گھرانہ نئے چرچز اور عیسائی اسکول بنانے کے لئے معروف تھا. جب آپ بارہ سال کے تھے تب ہی آپ کو ہوسٹن ٹیکساس میں بپتسمہ دیا گیا. آپ ہر چرچ کے بارے میں معلومات اور مہارت حاصل کرتے رہے. آپ نے ہندو اور بدھ مذھب کے ساتھ کئی دیگر مذاھب کا بھی مطالعہ کیا مگر دین اسلام سے دل میں اتنا بغض تھا کہ کبھی اس کے بارے میں جاننے کی کوشش نہ کی. آپ کے والد تو چرچ میں منسٹر تھے ہی آپ کو بھی مذھبی موسیقی کا منسٹر بنادیا گیا. تیس سال تک آپ نے اپنے والد کے ساتھ مل کر کاروبار کیا اور اس سے کروڑ پتی بن گئے. اتنا مال اور چرچ میں سینئر ہونے کے باوجود آپ کا دل سکون سے ناآشنا تھا. آپ کے دماغ میں 'عقیدہ تثلیث' اور' اصلی گناہ' سمیت دیگر کئی عیسائی عقائد کے بارے میں الجھن موجود تھی مگر باقی عیسائی اشخاص کی ایک بڑی تعداد کی طرح آپ نے بھی ان سوالوں کو ایمان کے منافی سمجھ کر دفن کر رکھا تھا. پھر آپ کے والد نے انہیں اپنے ایک نئے بزنس پارٹنر سے ملنے کو کہا جو کہ ایک مصری مسلمان تھا. لفظ مسلمان سنتے ہی آپ نے پوری کوشش کی کہ اس سے نہ ملا جائے مگر والد کے اصرار پر ملنے کو تیار ہوگئے. جس دن ملاقات تھی اس دن چرچ سے ایک بڑا سا مذھبی جبہ پہنا، گلے میں ایک چمکیلا سا کراس لٹکایا اور ایسی کیپ پہن کر گئے جس پر لکھا تھا کہ ' جیزس از گاڑ' (استغفراللہ). . مسلم سے ملے تو آپ کی امید کے برخلاف نہ اس کی لمبی داڑھی تھی اور نہ ہی عربی لباس. وہ تو ایک عام سا شائستہ انسان تھا. اس کے بعد آپ نے اسے عیسائیت کی دعوت دینا شروع کی. کچھ عرصہ کیلئے وہ آپ کے گھر مقیم ہوا تو دن رات وہ ، انکی بیوی اور ان کے والد اسے بائبل سیکھانے کی کوشش کرتے رہے. اسی دوران ایک کیتھولک چرچ کا پادری بھی ان کے گھر پر آکر ٹھہرا. یہ ہر روز نشست جماتے جس میں ہر ایک اپنی اپنی بائبل کے بارے میں گفتگو کرتا. تینوں عیسائی افراد تین الگ الگ بائبلز کو زیادہ قطعی سمجھتے تھے. سب مل کر اس محمد نامی مہمان کو عیسائیت کی تبلیغ کرتے جسے وہ بہت غور سے سنتا اور سوال پوچھنے پر اسلام کے بارے میں بھی بتاتا. پھر ایک روز کیتھولک پادری نے فرمائش کی کہ کیا مجھے مسجد دیکھا سکتے ہو؟ محمد انہیں مسجد لے گیا. واپسی پر سب نے پوچھا کہ کیسا رہا ؟ تو بتایا کہ مسلمان تو نہ گانا گاتے ہیں نہ ہر نماز کے ساتھ تقریر کرتے ہیں. بس عبادت کرکے آجاتے ہیں. کچھ دن بعد ایک بار پھر اس کیتھولک فادر نے ساتھ جانے کی فرمائش کی. اس بار پورا دن گزر گیا اور محمد اور پادری صاحب نہیں آئے. رات گئے جب واپسی ہوئی تو پادری اب اسلام قبول کر کے مسلم ہو چکے تھے. یوسف ایسٹس جن کا اس وقت نام جوزف تھا بہت پریشان ہوئے اور اپنی بیوی کو روداد سنائی. جواب میں بیگم نے کہا کہ میں نے تو پادری سے پہلے ہی قبول اسلام کا فیصلہ کرلیا ہے. یوسف پر بجلی گری. آپ گئے اور محمد کو سوتے میں سے اٹھایا اور کہا کہ انہیں بات کرنی ہے. پھر مذہب پر دونوں نے ساری رات گفتگو کی اور فجر تک جوزف کا دل یوسف کے قلب میں بدل گیا. آپ نے بھی اسلام قبول کرلیا. منسٹر والد نے بھی چند ماہ بعد اسلام کو سمجھنے کے بعد اسے قبول کیا اور سب سے آخر میں آپ کی سوتیلی ماں ایمان لے آئیں. . یہ وہ روداد ہے جو مختصر ترین الفاظ میں راقم نے درج کردی ہے. اس دن سے لے کر آج تک آپ دین کی تبلیغ میں شب و روز لگے ہوئے ہیں. آپ کا دعوتی اسلوب بہت ہی دل موہ لینے والا ہے اور بیشمار ویڈیوز آپ کی انٹرنیٹ پر موجود ہیں. آپ کی دینی سمجھ پر ابتدا میں کچھ حضرات نے تنقید کی جس کی ایک وجہ آپ سے کچھ مسلکی رنجش تھی، اس کے بعد آپ مزید محتاط ہوگئے. ویسے بھی شیخ سے اگر کچھ قیمتی سیکھنا ہی ہے تو وہ فقہی مسائل نہیں بلکہ دعوت دین ہے.

Enjoyed this article? Stay informed by joining our newsletter!

Comments

You must be logged in to post a comment.

About Author